۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
شهید صدر

حوزہ/علمِ کلام کو علمِ اصولِ دین بھی کہا جاتا ہے، یہ علم ابتدائے اسلام میں ہی وجود میں آیا، اس علم کے ظہور کے ساتھ جدید فرقے بھی اسلام میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔

تحریر: محمد حسین چمن آبادی

حوزہ نیوز ایجنسی । علمِ کلام کو علمِ اصولِ دین بھی کہا جاتا ہے، یہ علم ابتدائے اسلام میں ہی وجود میں آیا، اس علم کے ظہور کے ساتھ جدید فرقے بھی اسلام میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔

ہم سب پہلے علمِ کلام کی تعریف کرتے ہیں:

"یہ ایسا علم ہے کہ جو شخص اس علم کا مالک ہو وہ دوسروں کے مد مقابل استدلال کے ساتھ اپنے دینی عقائد کا پرچار اور شبہات کو دفع کرسکتا ہے۔"
شہید سید محمد باقر صدر ؒ ایسے فقہاء میں شمار ہوتے ہیں۔جنہوں نے اپنی مختصر زندگی، فکری اور عملی دونوں لحاظ سے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دشمن کے ہر حملوں کا نہایت ہی محکم انداز میں نہ صرف جواب دیا بلکہ ہجومی ٹیکنیک سے بھر پور استفادہ کیا اور مارکسزم و سوشلزم کے یلغار کو پسپا کیا، شہید کی ہر کتاب خواہ وہ فقہ میں ہو یا اقتصاد میں، تاریخ میں یا عرفانی سب میں کلامی رنگ پایا جاتا ہے، یہاں تک ابواب فقہ کی تقسیم بندی میں بھی ان کی فکری بلند پرواز ی کلامی رنگ عیاں ہے۔
فقہ کو وہ انفرادی عبادات واعمال تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ حکمراں طبقے کی رفتار کردار سے بھی بحث کرتا ہے۔ ان کی کتاب فلسفتنا میں بھی کلامی رنگ پر رونق ہوتے نظر آتا ہے، اسی کتاب میں خدا کی وجود سے بحث کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ دنیا کامبدأ مادہ ہے اور نہ مادی کیونکہ دنیا متحرک ہے اور متحرک ہمیشہ محرک کا محتاج ہوتا ہے اور وہ ذات خداوندی کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں ہوسکتی۔
شہید صدر اپنی اصولی کتاب میں بھی کلامی مسائل سے بحث کیے نہ رہ سکےہیں، جیسا کہ حسن و قبح عقلی کے مسئلے میں متکلمین کے ہاں ثابت شدہ اصول میں خدشہ وارد کرتے ہیں ، متکلمین کا عقیدہ ہے کہ وجوب اطاعت اور حرمت معصیت کے بعد عقل عملی تقاضاکرتی ہے کہ یہ دین سے نہیں لیا بلکہ اس کا مرتبہ دین سے پہلے ہے، جبکہ شہید صدر کا نظریہ ہے کہ وجوب طاعت اور حرمت معصیت کا وجوب عقلی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ احتمال عقاب سبب بنتا ہے کہ انسان اطاعت کے لزوم اور معصیت کے ترک کے لیےدین کی معرفت حاصل کرتا ہے، دوسرے الفاظ میں ساری نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، اور وہی حقیقی مولی وآقا ہے لہذا اس کی اطاعت کا وجوب اور معصیت کی حرمت حکم عقل کی وجہ سے ہے لیکن شہید صدر اس با ت کو قبول نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کی اطاعت کا واجب ہونا اور اس کی بارگاہ میں معصیت کرنا حرام ہونے کی علت حکم عقل نہیں بلکہ دفع ضرر محتمل ہے یعنی انسان عقاب سےڈرنے کی وجہ سے کسی امن دینے والے کی تلاش میں جاتا ہے اور وہ امن دینے والا دین ہے۔
متکلمین کسی نبی کے دعوی نبوت کے اثبات کے لیے معجزے کو کافی سمجھتے ہیں کہ اگر معجزہ نہ دکھا سکے تو گمراہی کی طرف رہنمائی ہوگی اور گمراہی و اضلال اللہ تعالی کی نسبت قبیح ہے، اور اللہ تعالی سے کسی امر قبیح کا صدور محال ہے، لہذا متنبی معجزہ نہیں دکھا سکتا، لیکن شہید صدر فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی نبوت معجزے سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ حساب احتمالات کی روشنی میں مدعی نبوت کے معجزے کی تصحیح ہوگی ورنہ خالی معجزہ اثبات نبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔
شہید صدرؒ نے علم کلام میں اگرچہ کوئی مستقل کتاب تحریر نہیں کی ہے لیکن ان کا نظریہ کلامی ان کی کتابوں میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے، البتہ ان کی کتاب الفتاوی الواضحہ میں ایک رسالہ لکھا گیا تھا جسے بعد میں الگ کر کے کتاب بنا دی جسے«الموجز فی أصول الدین»کہا جاتا ہے۔
ان کی ایک اہم کتاب کا نام « الأسس المنطقیہ للاستقراء » ہے، اس کتاب میں انہوں نے حس و تجربہ پر بھروسہ کرتے ہوئے حساب احتمالات کے ذریعے سے وجود صانع کو ثابت کیا ہے۔
آپ نے الموجز فی اصول الدین میں دین کی طرف انسان کے تمایل کے بارے میں موجود دس کے قریب نظریات بیان کیا اور اس کے بعد اپنا نظریہ دیتے ہوئے دین کی طرف انسان کے میلان کو فطری قرار دیا ہے۔ان نظریات میں سے پہلا علم عمرانیات کی رو سے ہے، اس نطریہ کے ماننے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ خدا پر ایمان کا منشا طبقاتی فاصلہ ہے، دوسرےلفظوں میں جب کسی معاشرے کا ایک طبقہ دوسروں لوگوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے لگ جائے تو وہ مزدوروں کو اپنے قابو میں رکھ ان سے کام لینے کے لئے دین کو بنایا، اور ان کو قیامت کے اجرو ثواب کا لالچ دے کر اپنا مفاد حاصل کرنے لگا، اور آہستہ آہستہ مظلوم طبقے نے بھی اسی حالت کو اپنی سرنوشت سمجھ کر دین کی طرف رخ کیا۔
دوسرا نظریہ علم نفسیات کی رو سے ہے، ان کے بقول خدا پر ایمان کا سبب فطری حوادث اور مشکلات ہیں جن کی وجہ سے انسان نے اپنی تسکین کے واسطے دین کی تخلیق کی۔
تیسرا نظریہ تاریخ دانوں کا ہے، وہ لوگ جہل ونادانی کو دین کے وجود میں لانے کا سبب قرار دیتے ہیں۔لیکن شہید صدرؒ معتقد ہیں کہ دین کی طرف انسان کا رجحان فطری ہے اور انسان کے وجود سےباہر اس کی علت ڈھونڈنا عاقلانہ نہیں بلکہ اس مشکل کا حل خود انسان کے وجود کے اندر تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ انسان کا باطن اس کے ظاہر سے کئی گنا پیچیدہ اور عمیق ہے اور اس گہرے باطنی سمندر میں دین کی طرف تمائل کا سبب موجود ہے اور اس کا باطن اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مربوط ہے اور اسی فطری میل ہی کے سبب انسان نے فلسفہ وجود میں لایا اور فلسفی مفاہیم جیسے مفہوم وجود وعدم، مفہوم وجوب و امکان، مفہوم علت ومعلول سے بحث کی اوراستدلال میں انہی مفاہیم سےاستفادہ کیاتاکہ اللہ تعالی پر ایمان کی بنیاد اور اساس قوی اور مستحکم ہوجائے۔
شہید صدرؒ نے اس بحث کے بعد خدا کے وجود ثابت کرنے کے لیے دو دلیلوں سے استفادہ کیا ہے، ان میں سے پہلی علمی (استقرائی ) حساب احتمالات اور دوسری فلسفی ہے، پہلی دلیل میں پانچ مراحل طے کرتے ہیں تاکہ نتیجہ تک پہنچ سکے، اور اس دلیل میں خدا کے علاوہ تین دیگر احتمال بیان کرنے کے بعد انہیں ضعیف قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہیں اور آخری احتمال کوقبول کرتے ہوئے اس تائید میں آیت کریمہ سے استفادہ کرتے ہیں«سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنفُسِهِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّهُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ»ترجمہ: ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقیناوہی (اللہ) حق ہے، کیا تمہارے لیے تمہارا رب کافی نہیں ہے جو یقیناً ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .